کالم

فروغ امن کے لیے سیاستدانوں کے فرائض

اعلیٰ ترین تصور ‘بنیادی اصول اور سیاست کے ہر عمل کو پرکھنے اورآزمائش کا پیمانہ صرف امن ہے۔لفظ سیاست سے بذات خود اس کی وضاحت ہو جاتی ہے۔انگریزی زبان کا لفظ پولیٹکس یایونانی زبان سے ماخوذ ہے۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات باہم مذاکرات بات چیت ‘ افہام و تفہیم اور امن و انصاف سے چلاتے ہیں۔سکالر ڈولف شٹبز گر کے الفاظ میں ’’ سیاست کا جوہر امن ہے۔اس طرح امن کا جوہر سیاست ہے۔‘‘ گویا امن کا فروغ ہماری اہم ترین اخلاقی ذمہ داری ہے۔ہم کسی بھی ضابطہ اخلاق اور فلسفے پر یقین رکھتے ہوں۔خواہ وہ اسلام کے اصول پر یقین رکھتے ہوں یا عقلیت پسند ہوں،مغربی تہذیب کی روایات کے پیروکار ہوں یا عما نویل کانٹ کے عملی استدلال کو تسلیم کرتے ہوں۔سب میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فروغ امن کو رہنما اصول کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔اگر صحیح تناظر میں دیکھا جائے تو اخلاقیات اور سیاست کے مقاصد میں کوئی اختلاف نہیں اور جس سیاست میں اخلاقیات نہ ہو اسے حقیقی سیاست نہیں کہا جا سکتا۔سیاست کا بنیادی مقصد قیام امن اور اسے برقرار رکھنا ہے۔۔امن وہاں پھولتا پھلتا ہے جہاں آزادی اور انصاف ہو رواداری اور حقیقی یکجہتی پائی جاتی ہو۔امن ایک ایسا عمل ہے جس کی آئے دن تجدید ہوتی رہنی چاہیے۔اس بات کااطلاق نجی‘سرکاری‘قومی اور بین الاقوامی تمام سطحوں پر یکساں ہوتا ہے۔انسانی حقوق کے معاملے میں ان کی پابندی ساری دنیا کے لیے لازمی ہے۔دنیا کے تمام ممالک کو ایک دوسرے سے مختلف مذاہب اور ثقافتی روایات کے باوجود ان اصولوں کا احترام کرنا چاہیے کسی بھی مملکت کے اخلاقی اور قانونی جواز کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ انسانی وقار‘ امن ‘آزادی اور انصاف کے تحفظ سے متعلق فرائض اور ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہو۔۔تاہم حقیقی زندگی میں پیش آ نے والے حالات میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔اس بارے میں اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ایک برسر اقتدار سیاستدان کے لیے عملیت پسند ہونا ناگزیر ہے اسے ٹھوس اصولوں مگر حقیقت پسندی کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے تا کہ وہ اکثریت کی حمایت حاصل کر سکے اور درپیش مسائل کا ممکن حد تک بہترین حل ڈھونڈ سکے ۔اخلاقیات کو عملیت اور افادیت سے مربوط اور منسلک ہونا چاہیے۔بارہا سیاستدانوں کو عوامی بھلائی کی خاطر متنازعہ حل قبول کرنے پڑتے ہیں تاکہ نقصان دہ اور خراب حل پر عمل درآمد سے بچا جا سکے ۔سیاستدان کو حمایت حاصل کرنے کے لیے تنازعے کو برداشت کرنا چاہیے اس کے ساتھ ہی حالات کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھنی چاہئیں ۔لیکن سیاستدانوں کو یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ اسے کیا کچھ کرنے اور کون سا کام نہ کرنے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔۔ہماری جمہوریت کا تقاضا ہے کہ سیاسی فیصلوں میں عوام کی رائے شامل کی جائے لیکن کوئی فیصلہ نہ کرنا نہ صرف غیر سیاسی بلکہ غیر اخلاقی حرکت بھی ہے۔
فروغ امن کا مطلب دوسری باتوں کے علاوہ ہے کہ اس جگہ ‘جہاں امن ‘آزادی اور سماجی انصاف کو نقصان پہنچ رہا ہو یا پہنچایا جا رہا ہو وہاں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کریں اور یہ کام جذبہ ایثار کی بجائے سیاسی ضرورت کے طور پر کیا جائے ۔ملک عزیز کی سلامتی اور خوشحالی دینا اور پڑوسی ممالک کی اعلیٰ دوستی سے وابستہ ہے ۔ہم دنیا میں پر امن اور محفوظ اس وقت رہ سکتے ہیں جب دوسرے بھی امن و سلامتی میں ہوں۔لیکن پاکستان تمام کام تنہا نہیں کر سکتا۔ہم نے اپنے قومی مفادات کے پیش نظر اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہے ۔
اپنے محل وقوع ‘ عالمی برادری سے اپنے قریبی ربط ضبط اور اپنی اقدار اور مفادات کے نظاموں کی وجہ سے پاکستان کو بھی یہ تمام اندیشے اور خطرات درپیش ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم درپیش چیلنجوں سے کس طرح نمٹتے ہیں اور کتنی جرات اور ذمہ داری سے عمل کرتے ہیں۔درحقیقت یہ سوال ہے ہمارے اور ہماری سیاست کے معیارات کا ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی بھارت شب و روز جدید عسکری ہتھیاروں سے خود کو لیس کیے جا رہا ہے ۔ایٹمی اسلحہ جات اور مزائلوں کے انبار لگا رہا ہے اور یہ سب کچھ اپنے پڑوسیوں کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کر رہا ہے ۔اب صرف بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ ہی نہیں بلکہ اسرائیلی ایجنسی ’’موساد ‘‘ بھی مداخلت کر رہی ہے۔جس سے نہ صرف ہماری امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہیں بلکہ معیشت بھی روز بروز کمزور پڑتی جا رہی ہے ۔دہشت گردی سے زیادہ منافقت ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے۔امریکی دوستی زہر قاتل بنتی جا رہی ہے ۔پاکستان پر بے جا دباؤ ڈالا جا رہا ہے‘خانہ جنگی کی سی صورتحال جنم لے رہی ہے۔ہماری افواج کو اُلجھا کر اس کا مورال گرایا جارہا ہے‘ سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔اللہ ہم پر رحم فرمائے ۔(آمین)**

No comments:

Post a Comment